0

قیدی نمبر 804 بمقابلہ گیٹ نمبر 4

قیدی نمبر 804 بمقابلہ گیٹ نمبر 4

تحریر: ملک وسیم اختر

پاکستان اس وقت ایک نہایت نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہر سمت بے یقینی، مایوسی اور معاشی بدحالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سیاسی میدان انتشار کا شکار ہے، معیشت زوال پذیر ہے، اور عوام کا صبر جواب دے چکا ہے۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں گونج رہا ہے: کیا ہم داخلی محاذ آرائیوں سے نکل کر ایک متحد قوم بن سکتے ہیں یا اسی کھینچا تانی میں الجھے رہیں گے؟

جب تک قیدی نمبر 804 اور گیٹ نمبر 4 کے درمیان افہام و تفہیم پیدا نہیں ہوتی، ملک کی گاڑی دوبارہ ترقی کی پٹری پر نہیں آ سکتی۔ نہ معیشت سنبھلے گی، نہ سیاسی استحکام آئے گا، نہ امن بحال ہو گا، اور نہ ہی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا۔ اس سنگین صورتِ حال سے نکلنے کے لیے دونوں فریقین کو عقل، تدبر، اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

قیدی نمبر 804 وہ شخصیت ہے جسے ملک کی اکثریت اپنا نجات دہندہ مانتی ہے۔ عوامی مقبولیت اس کے ساتھ ہے، اور وہ ملک کو یکجا کرنے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے، اور پاکستان کو باوقار ریاست بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی مقبولیت کسی وقتی مہم یا میڈیا سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ عوام کے دلوں کی صدا ہے۔

دوسری جانب گیٹ نمبر 4 والوں کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ عوامی رائے کو دبانا ممکن نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور ریاستی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اب وقت کا تقاضا ہے کہ ادارے اپنی غیرجانب داری کو یقینی بنائیں، اور عوام کے منتخب نمائندوں کو حکمرانی کا پورا اختیار دیا جائے۔اب ایک قومی بیانیے کی ضرورت ہے
قومی مفاہمت اور دانشمندی ہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ قیدی نمبر 804 کو اپنے کارکنان کے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے سیاسی دروازے کھلے رکھنے ہوں گے، اور گیٹ نمبر 4 والوں کو یہ حقیقت ماننی ہو گی کہ عوامی طوفان کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ عوام جس رہنما کو منتخب کر چکے ہیں، اس کا احترام ہی جمہوریت کا حسن ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تلخیوں کو فراموش کر کے ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیں۔ ایسا معاہدہ جس میں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جائے اور ہر ادارہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے۔ صرف یہی راستہ پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر ایک خوشحال اور خودمختار قوم بنا سکتا ہے۔

اگر قیدی نمبر 804 اور گیٹ نمبر 4 کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نکل آئے، تو یقین مانیے پاکستان ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ہمارے وسائل، ہماری جغرافیائی اہمیت اور ہماری باصلاحیت قوم دنیا میں ہمیں وہ مقام دلا سکتی ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔
امید کی کرن ابھی باقی ہے — شرط صرف یہ ہے کہ ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو اولیت دی جائے یہی وقت ہے پاکستان کو بچایا جائے سنوارا جائے اور دنیا میں اس کا مقام بلند کیا جائے

پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں