0

امن کا بہروپ اور دشمن کا چہرہ: پاکستان و بھارت تعلقات کی حقیقت۔”تحریر ملک وسیم اختر

حقیقی دشمن
امن کا بہروپ اور دشمن کا چہرہ: پاکستان و بھارت تعلقات کی حقیقت
تحریر ۔ ملک وسیم اختر

جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، عالمی طاقتیں اچانک “ثالث” بننے کا کردار ادا کرنے لگتی ہیں، جیسا کہ حالیہ جھڑپوں کے بعد ہوا۔ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی پاکستان بھارت کو سمجھاتا رہا کہ یہ حرکت خطے کے امن کے لیئے درست نہی ہم نے جواب دیا تو دنیا دیکھے گی اور پھر خود بتائے گی کہ بھارت کے ساتھ ہوا کیا ہے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر برقرار رہا پھر جب بھارت کو پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تو اس کی تمام شیخی، جارحیت اور “اکھنڈ بھارت” کے خواب آنکھوں سے اتر گئے۔ یہ وہی بھارت ہے جو عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک پرامن جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن درحقیقت اس کی پالیسیاں، خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے، دشمنی پر مبنی ہیں۔ آزادی سے ہی بھارت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی رکھی اگر ابھی تازہ صورتحال کی بات کریں تو بھارت نے پہلگام واقع کو بنیاد بنا کر پہلے سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ ختم کیا جو کہ بھارت ایسا نہی کر سکتا
سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں عالمی ثالثی کے ذریعے طے پایا، جسے پاکستان نے ہمیشہ سنجیدگی سے نبھایا۔ بھارت نے حالیہ برسوں میں اس معاہدے کو یک طرفہ ختم کرنے کا عندیہ دیا اور آبی جارحیت کی راہ اپنائی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا امریکہ کی مداخلت سے جنگ تو رک گئی، مگر کیا بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو بحال کرنے کی کوئی عملی کوشش کی؟ تاحال نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بھارت کی نیت صاف نہیں اور وہ موقع ملتے ہی دوبارہ جارحیت پر اتر سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لائے۔ بھارت کو اب “پڑوسی ملک” کی حیثیت سے دیکھنا خودفریبی ہوگی۔ وہ ایک دشمن ریاست ہے جو نہ صرف سرحدی جارحیت کرتا ہے بلکہ سفارتی، معاشی اور آبی محاذوں پر بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اسے پڑوسی نہیں بلکہ دشمن سمجھ کر پالیسی بنائی جائے۔

امریکہ کا کردار ہمیشہ بھارت نواز رہا ہے۔ جب بھارت کو شکست ہوئی، تبھی امریکہ کو ثالثی یاد آئی۔ اگر بھارت غالب آتا، تو شاید یہ جنگ مزید طول پکڑتی۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ امریکہ کی ثالثی کا مقصد امن نہیں، بلکہ اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ پاکستان کو اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے فیصلے خود کرنے ہوں گے، نہ کہ عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے ہوں۔

1. سفارتی سطح پر: بھارت کو دنیا کے سامنے ایک جارح اور غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر بے نقاب کیا جائے۔2. معاشی و تجارتی تعلقات: ہر ممکن حد تک محدود کیے جائیں، تاکہ بھارت کو اقتصادی فائدہ نہ ہو۔
3. آبی پالیسی: سندھ طاس معاہدے پر مکمل نظرثانی اور عالمی سطح پر قانونی جنگ کی تیاری کی جائے۔
4. عوامی بیانیہ: میڈیا اور نصاب میں بھارت کو “دشمن ملک” کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ نئی نسل کو اصل حقیقت کا شعور ہو۔یہ وقت جذبات سے نہیں، حقیقت پسندی سے کام لینے کا ہے۔ بھارت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں بن سکتا۔ اب یہ پاکستانی ریاست اور عوام پر ہے کہ وہ کب تک اس منافقانہ “پڑوسی” کو برداشت کرتے ہیں۔ دشمن کو دشمن نہ کہا جائے، تو سب سے بڑا دھوکہ خود سے ہوتا ہے۔

پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں