0

سی سی ڈی کے کارنامے: انصاف یا ماورائے قانون اقدامات؟

سی سی ڈی کے کارنامے: انصاف یا ماورائے قانون اقدامات؟
سزا اور جزا
تحریر
ملک وسیم اختر

قارئین! آج ہم ایک نہایت اہم اور سنجیدہ مسئلے پر بات کریں گے۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک ادارہ قائم کیا ہے جسے سی سی ڈی (CCD) کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد سنگین نوعیت کے جرائم جیسے قتل، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور ریپ کی تفتیش اور روک تھام ہے۔

تاہم اس ادارے کے طریقۂ کار پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اب تک جتنے بھی سنگین مقدمات سامنے آئے، ان کے مجرمان کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ ہر بار یہی بیان سامنے آیا کہ “مجرمان نے پولیس پر فائرنگ کی اور اپنے ہی ساتھیوں کی گولی سے ہلاک ہو گئے۔”

نئی اصطلاحات: ہاف فرائ، فل فرائ اور نیفے میں پستول

سی سی ڈی نے کچھ نئے انداز بھی متعارف کرائے ہیں، مثلاً:

ہاف فرائ: ملزم کو ٹانگ میں گولی مار کر زخمی کرنا۔

فل فرائ: ملزم کو براہِ راست جان سے مار دینا۔

نیفے میں پستول: اکثر بیان سامنے آتا ہے کہ “ملزم کے نیفے میں رکھا پستول اچانک چل گیا، جس سے اس کا عضو مخصوصہ زخمی یا متاثر ہو گیا۔”

یہ اصطلاحات اگرچہ سننے میں غیر سنجیدہ لگتی ہیں لیکن ان کے پیچھے نہایت سنگین سوالات چھپے ہیں:
کیا واقعی ایسے جرائم پیشہ افراد کو بغیر عدالتی کارروائی کے خود ہی سزا دینا درست ہے؟

سنگین جرائم اور قانون کا راستہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ قتل، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور ریپ جیسے جرائم معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ یہ جرائم ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے مجرمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرتے ہیں تاکہ قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد سزا دی جا سکے۔

لیکن اب حکومت پنجاب نے سی سی ڈی کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ عدالت میں لے جانے کی بجائے “ہاف فرائ، فل فرائ” یا “نیفے میں پستول” جیسے طریقوں سے ہی ملزمان کو “انجام” تک پہنچا دے۔

اخلاقی پہلو

اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو قتل ۔ڈکیتی ۔اغوا برائے تاوان ۔عیپ ان کا اخلاق سے دور دور تک کوئ تعلق نہی کیونکہ جرم کا کوئ اخلاق نہی دوسری جانب انصاف کا تقاضا ہے کہ سزا اور جزا ایک شفاف عمل کے ذریعے ہو۔ اگر پولیس یا ادارے خود ہی جج اور جلاد بن جائیں تو یہ انصاف نہیں بلکہ انتقام بن جاتا ہے۔ کیونکہ جرائم کعنے والے کا اخلاق اور قانون سے تعلق نہی لیکن جرائم روکنے والوں کا تو اخلاق اور قانون سے تعلق گہرا ہوتا ہے
مثال کے طور پر، اگر کسی بےگناہ شخص کو غلطی سے ہاف فرائ یا فل فرائ کر دیا گیا تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ معاشرتی اعتماد ایک لمحے میں ٹوٹ جائے گا۔

معاشرتی پہلو

معاشرتی طور پر بھی قتل ڈکیتی ۔اغوا برائے تاوان اور ریپ کا تصور مہذب معاشرہ میں ہے ہی نہی ایسے اقدامات خطرناک ہیں۔لیکن ان جرائم کی روک تھام میں معاشرتی لحاظ سے بہت اہم ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اگر یہ رواج پختہ ہو گیا کہ مجرم کو پکڑنے کے بجائے “ہاف فرائ فل فرائ ” کر دیا جائے تو پھر معاشرے میں قانون کی عملداری ختم ہو جائے گی۔ لوگ سمجھنے لگیں گے کہ پولیس کے پاس کسی کو بھی “مجرم” کہہ کر سزا دینے کا اختیار ہے۔ اس سے عام شہریوں کا قانون پر اعتماد ٹوٹے گا اور خوف و بےاعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔

قانونی پہلو

قانونی اعتبار سے پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ:

کسی بھی شہری کو جرم ثابت ہونے سے پہلے مجرم نہیں کہا جا سکتا۔

آئین کی شق 10-A ہر شہری کو فیئر ٹرائل (منصفانہ مقدمہ) کا حق دیتی ہے۔

لہٰذا “ہاف فرائ” اور “فل فرائ” جیسے اقدامات قانون کی نظر میں ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہیں۔ پولیس یا ادارے کا کام مجرم کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرنا ہے، نہ کہ خود فیصلہ سنا دینا۔

اسلامی پہلو

اسلام میں بھی سزا دینے کا اختیار صرف عدالت اور قاضی کو ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

> “اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔” (النساء: 58)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> “حدود میں شک ہو تو انہیں روک دو۔” (سنن ترمذی)
یعنی اگر ثبوت واضح نہ ہوں تو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اسلام میں قتل، ڈکیتی اور ریپ جیسے جرائم پر سخت سزائیں مقرر ہیں، مگر ان کے نفاذ کے لیے گواہی اور عدالتی عمل لازمی ہے۔
سی سی ڈی کا قیام اپنی جگہ ایک اچھا قدم ہے اگر یہ ادارہ واقعی جرائم کے خلاف کام کرے۔ لیکن “ہاف فرائ، فل فرائ اور نیفے میں پستول” جیسے طریقے انصاف کے اصولوں کے منافی ہیں۔

جرائم ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مجرمان کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے تاکہ نہ صرف عدل قائم ہو بلکہ معاشرے میں قانون پر اعتماد بھی بحال رہے۔ بصورت دیگر یہ ماورائے عدالت کارروائیاں کل کو کمزور اور بےگناہ افراد کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔

سوال قارئین کے لیے:
کیا واقعی ایسے سنگین جرائم کے مجرمان کو “ہاف فرائ” اور “فل فرائ” جیسے طریقوں سے سزا دینا درست ہے یا انہیں عدالتی نظام کے تحت کیفرِ کردار تک پہنچانا ہی انصاف ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں