0

صبا رانی مر گئی… اب کیا کوئی جاگے گا؟ تحریر : محمد امجد بٹ

صبا رانی مر گئی… اب کیا کوئی جاگے گا؟

تحریر : محمد امجد بٹ
22 سال کی تھی… نئی نویلی دلہن، صبا رانی۔
ابھی ایک سال ہی تو ہوا تھا شادی کو… اور اب دو ننھی بچیوں کی ماں بن کر قبر کی مٹی میں دفن ہو چکی ہے۔
نہ وہ اپنی بچیوں کو دیکھ سکی…
نہ وہ اس دنیا کے ظلم کو سمجھ پائی…
کیونکہ اس سے پہلے ہی یہ دنیا اُس پر ظلم کر چکی تھی
تحصیل سرائے عالمگیر کے نواحی گاؤں پوران کی رہائشی صبا رانی جب جڑواں بچیوں کو جنم دینے کے بعد کمزوری کا شکار ہوئی تو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں خون کی فوری ضرورت پیش آئی
لیکن لیبارٹری بند تھی!
ہاں… ایک سرکاری اسپتال میں، جہاں مریض آکسیجن اور خون کی تلاش میں آتے ہیں، وہاں لیبارٹری بند تھی!
جب حالت بگڑی تو ڈاکٹر نے خون دینے یا علاج کرنے کی بجائے صبا کو جہلم ڈی ایچ کیو ہسپتال ریفر کر دیا .. وہی جہلم جہاں انسان کا ضلع دیکھ کر علاج ہوتا ہے۔
جہاں ایک ماں کو صرف اس لیے دروازے سے واپس موڑ دیا گیا کیونکہ اُس کا شناختی کارڈ جہلم کا نہیں تھا۔
صبا کی سانسیں اکھڑتی رہیں…
شوہر کی آنکھیں علاج کے منتظر رہیں…
ایمبولینس کے سائرن شور کرتے رہے…
لیکن دروازے بند رہے، ڈاکٹر خاموش رہے، اور آخرکار صبا رانی مر گئی۔
اور اب؟
وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ!
وزیر صحت پنجاب !
ڈی سی گجرات!
کیا اب بھی آپ کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی؟
آپ کی “ریفارمز”، “ہیلتھ پالیسیز” اور “فوٹو سیشن” صرف کاغذوں پر تو ہیں… زمین پر تو صبا رانی مر رہی ہے۔
بچیاں یتیم ہو رہی ہیں۔
ماہیں قبروں میں جا رہی ہیں۔
اور آپ صرف فیتے کاٹ رہے ہیں!
کیا اس ملک میں غریب ماں کو جڑواں بیٹیوں کے بدلے موت ملتی ہے؟
اگر صبا کسی وزیر کی بیٹی ہوتی،
کسی ڈی سی کی بھانجی
یا کسی ایم این اے کی بیوی
تو کیا لیبارٹری بند ہوتی؟
کیا خون نہ ملتا؟
کیا اُس کا ضلع پوچھ کر اُسے دھتکارا جاتا؟
نہیں صاحب!
یہ سب کچھ صبا کے ساتھ ہوا… کیونکہ وہ غریب تھی۔
اور اس ملک میں غریب کے حصے میں بس دھتکار، لاپرواہی، اور قبر آتی ہے۔
خون ابھی تازہ ہے… ضمیر اگر زندہ ہے تو جاگ جائیے!
یہ صرف صبا رانی کی موت نہیں
یہ نظام کی، انسانیت کی، اور ریاستی بے حسی کی موت ہے۔
اگر آج ہم خاموش رہے،
تو کل کوئی اور ماں مرے گی…
کوئی اور بچی یتیم ہو گی…
اور ہمارے کاندھوں پر ایک اور جنازہ ہو گا
جسے ہم اپنی خاموشی کے کفن میں دفن کر دیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں